Novel in Urdu Full Novel in Urdu | Novel 01

Urdu Noval, Urdu Novals, Novels in Urdu, famous urdu novels, short novels in urdu, zeenia sharjeel, zeenia sherjeel novels, best urdu books, kitab nagri novel, nimra ahmed novels, urdu novels pdf, jannat k pattay, umera ahmed novels, prime urdu novel, peer e kamil full novel online, mushaf full novel, toota hua tara full novel, sadiyon ka beta full novel pdf, haalim full novel by nimra ahmed, baharon ke sang full novel in urdu, pathron ki palkon par full novel, khali ghar full novel in urdu, jannat k pattay full novel online, wo mera hai urdu novel, full novel in urdu, eleven minutes full novel in urdu, jheel kinara kankar full novel, tum akhri jazeera ho full novel, peer kamil full novel, ishq ka sheen full novel, naseem hijazi, huma waqas novels, classic urdu novels, pak digest novels, jannat k pattay pdf zeenia sharjeel fb itni mohabbat karo na novel, urdu novel in which hero kiss heroine, yaram novel, gandy novel in urdu, yusra shah novels, jannat k pattay novel, ana ilyas novels, ziddi junoon novel, forced marriage urdu novels, revenge based urdu novels, most romantic urdu novels, karna tu meri hifazat novel, ertugrul gazi book in urdu pdf, rude hero based urdu novels, most romantic and bold urdu novels, rooh e yaram novel, sham e inteqam novel, novel by zeenia sharjeel,

Romantic Urdu Novels

ان دنوں جب میں میٹرک  تھی میری واحد دوست نوشین تھی، ہم دونوں کے گھر ایک ہی محلے میں تھے۔ تبھی اکٹھے اسکول جاتے تھے۔

ہمارے اسکول کے سامنے ہی چند بیرکس بنی ہوئی تھیں جن میں کیڈٹ ٹریننگ لیا کرتے تھے۔ اسکول جاتے ہوئے نوشین اکثر ان بیرکس کی طرف دیکھتی تھی۔ جدھر سے چاق و چوبند خوبرو کیڈٹ کبھی ویسے ہی اور کبھی پریڈ کرتے نظر آتے تھے۔

میرا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا، جبکہ میری یہ سہیلی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ ایک کمرے کے کوارٹر میں ماں باپ اور چھ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس والد بیرکس کے خانساماں تھے لہذا ان کو رہائش، کھانا اور میڈیکل کی سہولیات حاصل تھیں۔ یوں ان کا گزاره ٹھیک ہو رہا تها۔

جب ہم اسکول جا رہے تھے تو کیڈٹ کی پریڈ ختم ہوئی تھی اور کیڈٹ وہاں نکل کر اپنے رہائشی یونٹس کی طرف رواں دواں ہو جاتے تھے۔ ان میں گل ریز خان بھی تھا جو نہایت خوبرو لمبا تڑنگا اور سرخ و سفید رنگت والا نوجوان تھا۔ 

نوشین کے والد کی وجہ سے وہ نوشین کو جانتا تھا۔ کیونکہ گل ریز کا کھانا وہی پکاتے تھے۔ میری سہیلی کو یہ خوبرو کیڈٹ بہت پسند تھا۔
اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ گل ریز سے بات کرے مگر وہ بے نیازی سے ہمارے پاس سے گزر جاتا تھا۔

ایک دن اچانک ہمارے راستے میں آگیا تو نوشین کے کہنے پر میں نے اس کو سلام کیا۔ اس نے چونک کر میری جانب دیکھا تو میں نے فورا کہا۔ معاف کیجئے گا، جان پہچان کے لئے یہ بہت ضروری تھا۔ ابھی میں نے اسی قدر کہا تھا کہ ترنت نوشین نے ایک رقعہ آگے بڑھا دیا جو وہ پہلے سے لکھ کر لائی
تھی۔

اگلے روز اسی وقت پھر وہی جوان ہم کو راستے میں ملا۔ تبھی اس نے رقعہ آگے بڑھایا۔ نوشین نے اس کے ہاتھ سے لینا چاہا مگر اس نے اس کی بجائے پرچہ مجھے تھما دیا اور آگے بڑھ گیا۔ میں نہیں جانتی اس حرکت سے نوشین پر کیا ۔ راستے بھر وہ خاموش رہی، کلاس میں آتے ہی چیں بہ جبیں ہو گئی اور اس کا رویہ میرے ساتھ انتہائی درشت ہو گیا۔

میں جان گئی کہ نوشین اس لڑکے کو پسند کرتی ہے، چھٹی کے وقت ہم نے یہ رقعہ کھولا تو اس میں درج تھا۔ میں آپ کا نام نہیں جانتا مگر نام جاننے اور لئے، یہ بہت ضروری تھا۔ تبھی رقعہ لکھنا مناسب سمجھا۔ اور ہاں ... میرا نام گل ریز خان ہے۔‘‘ ساتھ اس نے اپنا فون نمبر بھی لکھا تھا۔

چھٹی کے بعد جب ہم دوباره اس راستے سے گزرے تو وہ سامنے نظر آگیا۔ میں اس کی جانب سے دیک بنا آگے بڑھ گئی تو وہ ہمارے راستے میں آگیا اور کہنے لگا۔ آپ نے جواب نہیں دیا۔ بوکھلاہٹ میں صرف اتنا کہہ پائی کہ فون پر جواب دوں گی۔ اس نے سوال کیا۔ کس وقت ...؟

.؟ گھبراہٹ میں اس کو ٹالنے کے لئے کہہ دیا کے وقت میں نے یہ تو دیا مگر نوشین میرے پیچھے پڑ گئی کہ فون کرو. جب اس نے بہت مجبور کیا پھر خود ہی نمبر ملا دیا... اور فون مجھے تھما دیا۔ فون گل ریز خان نے ہی اٹھایا تھا لیکن نوشین کے بغیر مجھ سے ملیے۔ بیرکس کے قریب ہی ایک چلڈرن پارک تھا۔ 

جہاں ہم روز شام کو ملنے لگے۔ نوشین بھی ساتھ ہوتی اور کبھی میں چھٹی کا بہانہ کر کے کسی اور ٹائم پارک چلی جاتی تاکہ وہ ساتھ نہ ہو۔ یوں ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کی ٹریننگ ختم ہو گئی۔ گل ریز کا خیال تھا کہ کسی دوسرے شہر پوسٹنگ قبل وه رشتے کے لئے میرے والدین سے بات کرے گا۔

ادھر میرے والدین میری شادی کی فکر میں گھلنے لگے۔ کچھ رشتے آئے مگر وہ مناسب نہ تھے، جبکہ گل ریز کا مستقبل روز روشن کی طرح عیاں اور شاندار تھا۔ میرے والدین چاہتے تھے کہ میری جلد از جلد شادی ہو جائے کیونکہ ابو جان ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔

ایک روز اچانک ان کو دل کا دورہ پڑا اور انہیں علاج کی غرض سے ایک دوسرے شہر لے جانا پڑا۔ ہم سب اتنی جلدی میں وہاں گئے کہ میں گل ریز کو اطلاع بھی نہ دے سکی۔ ایک ماه ابو اسپتال رہے اور ان کی مکمل صحت یابی کے بعد ہم لوگ واپس اپنے شہر آگئے۔ آتے ہی میں نے گل ریز کو فون کیا

مگر وہ وہاں نہ تھا۔ جس نے فون اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ اس کی پوسٹنگ واه کینٹ ہو گئی ہے۔ میں نے اس کا بہت انتظار کیا مگر نہ اس نے فون کیا اور نہ ہی خط لکھا۔ انہی دنوں نوشین کی شادی ہو گئی اور وہ کھاریاں سے راولپنڈی چلی گئی۔ میں اکیلی رہ گئی۔

اب دل کا حال بھی کس سے کہتی۔ اس کے سوال میری اور کوئی دوست بھی نہ تھی۔ نے میری شادی کرنا چاہی مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ گل ریز کا انتظار تھا۔ یونہی اس کی یادوں میں دو سال گزر گئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے لیکچرر شپ کر لی، بھائی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔

 والد صاحب فوت ہوئے تو والده یہ صدمہ برداشت نہ کر سکیں اور وہ بھی ایک سال بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ پھر یکے بعد دیگرے بهائیوں کی شادیاں ہو گئیں اور میری ٹرانسفر مری ہوگئی، جہاں میں ہوسٹل میں رہتی تھی۔

ماه و سال پر لگا کر اڑتے چلے گئے۔ میں جب بھی بیتے دنوں کو یاد کرتی تو آنسو نکل پڑتے اور میں گزرتے وقت کو مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتی، مگر لمحے سرسراتی ریت کی طرح زندگی کے روز و شب سے چلے گئے۔ یوں دس بارہ سال اور بیت گئے۔

انہی دنوں ہمارے اسکول نے آرمی کے ایک فنکشن میں شمولیت کی، وہاں اچانک ہی مجھے گل ریز خان نظر آئے۔ اب وہ پہلے جیسے گل ریز خان نہ رہے تھے۔ نہ ہی ان میں لڑکوں جیسا کھلنڈر پن تها وه شوخی بھی نہ تھی جو کیڈٹ لوگوں کا خاصہ ہوتی ہے۔ اب وہ ایک سنجیده آفیسر تھے اور کنپٹیوں پر سفید بال جھلملا رہے تھے۔ جب ان کی نظر مجھ پر پڑی فورأ بال سے نکل پڑے۔ میں بھی ان کے پیچھے گئی اور ان کو راستے میں جا لیا۔

گل ریز خان، تم کہاں چلے گئے تھے۔ میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ جواب میں پوچھا تمہارا شوہر ٹھیک ہے۔ میں گنگ ہو کر ان کی طرف دیکھتی ره گئی کہ یہ کیسا سوال ہے۔ میرا شوہر...؟ ہاں تمہارا شوہر. مگر آپ سے کس کہاکہ میری شادی ہو گئی ہے۔

 کہنے لگے۔ اوه ... مجھے تمہیں پہلے بتا دینا چاہئے تھا کہ نوشین میری محبت میں گرفتار تھی اور اسی د مجھے کہا تها کہ تمہاری شادی ہو گئی ہے اور تم بیاہ کر سوات چلی گئی ہے۔ میں دو ہفتے تک تمہارے گھر کے چکر لگاتا رہا مگر وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ فون کرتا

تو فون کوئی نہ اٹھاتا تها، تبھی میں نے یہ سچ جانا کہ تمہارے گھر والے تمہارے ساتھ گائوں چلے گئے ہیں تمہاری شادی کرانے۔ یہ سن کر میں نے سر تھام لیا اور اس کو بتایا کہ نوشین نے غلط بتایا، ہم لوگ سخت پریشانی میں ابو کے علاج کے سلسلے میں ایک ماہ کے لئے کراچی چلے گئے تھے کیونکہ وہاں میرے تایا ابو ڈاکٹر تھے۔

گل ریز کو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ میں نے اس کے انتظار کی آس میں ابھی تک شادی نہیں کی۔ اس نے بتایا کہ شادی تو اس نے بھی نہیں کی، یوں خدا نے ہم کو ملا دیا کیونکہ ہماری محبت سچی تھی۔

آج میں مسز گل ریز ہوں اور اپنے گھر میں بہت خوش ہوں۔ سوچتی ہوں خدا نے مدت بعد ہم کو ملا دیا لیکن نوشین نے کیا خوب میرے ساتھ کیا۔ پیٹھا پیچھے چھرا گھونپ دیا حالانکہ میری گہری سہیلی تھی۔ تقریبا سال پہلے اطلاع ملی کہ نوشین سرطان مرض میں مبتلا ہو کر چل بسی ہے۔ میں نے بھی اس کا برا نہیں سوچا تھا اسے بدعا تک نہ دی تھی مگر سچ ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔


Tag: Urdu Noval, Urdu Novals, Novels in Urdu, famous urdu novels, short novels in urdu, zeenia sharjeel, zeenia sherjeel novels, best urdu books, kitab nagri novel, nimra ahmed novels, urdu novels pdf, jannat k pattay, umera ahmed novels, prime urdu novel, peer e kamil full novel online, mushaf full novel, toota hua tara full novel, sadiyon ka beta full novel pdf, haalim full novel by nimra ahmed, baharon ke sang full novel in urdu, pathron ki palkon par full novel, khali ghar full novel in urdu, jannat k pattay full novel online, wo mera hai urdu novel, full novel in urdu, eleven minutes full novel in urdu, jheel kinara kankar full novel, tum akhri jazeera ho full novel, peer kamil full novel,l

Novels in Urdu

[Novels][bleft]

HEALTH TIPS

[Health-Tips-in-Urdu][bleft]

Totkay in Urdu

[Totkay-in-Urdu][bleft]

Beauty Tips

[Beauty-Tip-in-Urdu][bleft]

Interesting Information

[Interesting-Information][bleft]