Novel in Urdu Short Novels in Urdu | Novel 02

Urdu Noval, Urdu Novals, Novels in Urdu, famous urdu novels, zeenia sharjeel, zeenia sherjeel novel, prime urdu novels, urdu novels list, best urdu novels, meerab hayat novels, very romantic urdu novels, full romantic urdu novels, free urdu digest, raja gidh, best urdu books, kitab nagri novel, nimra ahmed novels, urdu novels pdf, full romantic urdu novels, haalim full novel, haalim novel full, jannat k pattay full novel, haalim full novel pdf, peer e kamil full novel, karakoram ka taj mahal full novel, namal full novel, junoon se ishq tak full novel, muhabbat dil pe dastak full novel pdf, qarboonat baram full novel, hot full romantic urdu novels, bin mangi dua full novel, urdu short stories, urdu novels online, new urdu novels, stories in urdu new, short novels, short novels in english, best short novels, short novels to read, short novel story, all novels of zeenia sharjeel, dil e nadan novel, urdu stories, urdu kahaniyan, fairy tales in urdu, romantic urdu novels, urdu stories for kids, moral stories in urdu, horror stories in urdu, classic urdu novels, urdu short stories, urdu novels online, new urdu novels, stories in urdu new, short novels, short novels in english, best short novels, short novels to read, short novel story,

Zeenia Sharjeel Novels

زبیده بے حد غریب لیکن جفاکش عورت تھی۔ اسی وجہ ہے لوگ اس کی عزت کرتے تھے کہ بھوکی، پیاسی رہ کر بھی محلے والوں سے کبھی کچھ نہیں مانگتی تھی۔ اگر مانگتی تھی تو کام کہ حلال کی اجرت سے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ تبھی اس کو ہماری والده نے ملازمہ رکھ لیا۔

ان دنوں ہم لوگ بہت چھوٹے تھے، اس کے بچے بھی چھوٹے تھے۔ وہ ڈیڑھ سو روپے ماہوار لیتی تھی اور سارا دن ہمارے گھر رہ کر کام کرتی تھی۔ اس کا خاوند مسجد کے باہر چادر بچھا کر تسبیح اور ٹوپیاں فروخت کرتا اور شام کو اسی مسجد کے ایک حجرے میں سو رہتا کہ وہ مسجد کے صحن میں جھاڑو لگانے کا کام کرن لگا تھا۔ امام صاحب نے اسے رہنے کے لئے حجره دے دیا تھا۔

زبیدہ کے شوہر کا نام رمضان تھا۔ اسے صفائی کے کام کی زیادہ اجرت نہ تھی، پس وہ اپنی ذات کا خرچا نکال پاتا تھا۔ زبیده ہمہ وقت پریشان رہتی تھی کیونکہ اس کے چھ بچے تھے اور آمدنی قلیل تھی۔ کبھی چھوٹے بچوں کو ساتھ لے کر اور کبھی گھر چھوڑ کر کام کو نکلتی تھی۔ اس کے رشتے دار تو تھے لیکن غربت کی وجہ سے اپنے پرائے ہوگئے تھے۔

وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ اس کی بیٹیاں بڑی ہوگئیں۔ اب زبیدہ کو زیادہ فکر اور پریشانی نے ستایا۔ پہلے تو ان کو پالنے کا مسئلہ تھا، اب ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر دامن گیر ہوگئی۔ 

اسے خوب اندازہ تھا کہ غربت کی وجہ سے اس کی بیٹیوں کے رشتے اچھے گھروں میں نہ ہوسکیں گے تاہم امی جان تسلی دیا کرتی تھیں کہ ہر فکر کو اللہ پر چھوڑ دو، وہی مسبب الاسباب ہے۔ ان شاء الله تمہاری بچیوں کے نصیب کھلیں گے اور اچھے گھروں میں جائیں گی۔ تم بس ان کے لئے دعائیں کرتی رہا کرو۔

ایک روز دیہات سے میرے والد کے رشتے دار کسی کام سے شہر آئے تو ہمارے گھر قیام کیا۔ اس روز زبیده اپنی دونوں بڑی لڑکیوں کو کام میں باتها بٹانے کو ساتھ لائی تھی۔ مہمان خاتون نے ان کو دیکھا تو امی سے ان کے بارے میں پوچھ لیا۔ والدہ نے بتایا کہ زبیده غریب مگر بہت شریف عورت ہے

جو ہمارے گھر کام کرتی ہے اور یہ اس کی بیٹیاں ہیں۔ پہلے اس کے شوہر کی اچھی نوکری تھی۔ ایک روز ایک کار نے اس کو ٹکر مار دی، وہ سڑک پر گر گیا اور اس کا بایاں بازو ٹوٹ گیا۔ وہ معذور ہوگیا تو برے دن آگئے،

 نوکری جاتی رہی تب سے یہ بچارے حالات کا مقابلہ کررہے ہیں۔ وہ عورت جو ابو کی دور کی رشتہ دار تھی، اس نے اپنے دونوں بیٹوں کے لئے زبیده کی دونوں لڑکیوں کا رشتہ مانگ لیا۔

امی نے مدد کا وعدہ کیا تھا لہذا زبیده کی بچیوں کی شادیاں کرا دیں۔ وہ بیاہ کر دیہات چلی گئیں۔ خوبصورت اور سگھڑ تھیں اور پرائمری تک پڑها تها۔ انہوں نے بخوبی اپنے گھر بسا لئے۔ زبیده ان کی فکر سے آزاد ہوگئی اور اس نے سکون کا سانس لیا۔

شہر کی لڑکیاں دیہات میں رہنا پسند نہیں کرتیں مگر زبیده کی لڑکیوں کے لئے دیہات، شہر سے بڑھ کر ہوا۔ جہاں ان کو گھر کی خوشی اور عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی نصیب تھی۔

 دونوں کے شوہر کچھ عرصہ بعد سعودی عربیہ کمانے چلے گئے اور بعد میں انہوں نے بیویوں کو بھی بلوا لیا۔ ان لڑکیوں کے بخت سنور گئے۔ اب زبيده ان کی جدائی سہہ کر بھی مطمئن نہ تھی کہ شریف لوگوں میں بچیوں کا نصيب کهلا تها۔

تیسری بیٹی بھی بارہ برس کی تھی مگر ماں کو وہ ابھی سے بیس برس کی لگتی تھی۔ کبھی اس کا اپنی لڑکیوں سے رابطہ ہوتا، ان سے بھی کہتی۔ زہرا کا بھی کہیں رشتہ کرا دو تاکہ میں بے فکری سے محنت مشقت کو گھر سے نکال سکوں۔ اب تو نہ اس کو ساتھ لے جاسکتی ہوں اور نہ میں اکیلے چھوڑ سکتی ہوں۔


اس کی لڑکیاں سال بعد پاکستان آتیں۔ اس بار ماں سے ملنے آئیں تو زبیدہ نے پھر ان کی بنتی کی کہ زہرا کو کسی اچھے گھر بیاہنے کی کرو۔ تم چلی جاتی ہو تو پهر سال بهر خبر نہیں لیتیں۔

 اس کی بڑی لڑکی سائرہ نے کہا۔ ٹھیک ہے ماں، تم فکر مت کرو، اس بار میں زہرا کے لئے کوئی اچھا رشتہ تلاش کرنے کے بعد ہی سعودی عربیہ واپس جائوں گی۔ اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ مسئلہ حل کرو ورنہ میں تمہارے ساتھ نہیں جانے کی۔ شوہر نے جواب دیا۔

ایک رشتہ ہے مگر اس آدمی کی عمر زیادہ ہے۔ ماں سے پوچھ لو، اگر بڑے آدمی کو بیٹی دینے پر رضامند ہے تو منیب خوشحال آدمی ہے۔ یہ خص پہلے میرے ساتھ ایک کمپنی میں کام کرتا تھا، آج کل پاکستان میں ہے۔ سائرہ نے ماں کو مذکوره رشتے کی تفصیلات آگاہ کردیا۔ زبیده کہنے لگی۔

 عمر زیادہ ہے تو بھی مجھے اعتراض نہیں کہ میری مجبوری ہے۔ روز مزدوری کی خاطر گهر تمہارے ابا تو گھر آتے نہیں ہیں، یہاں تک کہ رات کو بھی حجرے میں سو جاتے ہیں۔ زمانہ خراب ہے، زہرا کو ساتھ لے کر چلتی ہوں تب بھی لوگ باتیں بناتے ہیں۔

https://www.induspress.com/2021/04/Novel-in-Urdu-01.html


سائرہ کا شوہر بولا۔ میرا دوست اچها أدمی چھٹی پر پاکستان آیا ہوا ہے۔ سعودی عربیہ میں اچھا کما رہا ہے، چالیس کا ہے مگر تمہاری بہن تو ابھی بارہ سال کی ہے، جوڑ بنتا نہیں ہے لہذا ایک بار پھر سے سوچ بچار کرلو۔

جب ماں کو اعتراض نہیں ہے پھر سوچنا کیا؟ زهرا ابھی شادی کے تقاضوں کو سمجهتی نہیں ہے۔ مگر وہ ہمارے پاس آجائے گی تو ہم سنبھال لیں گے، وہ ہمارے ساتھ خوش رہے گی۔ تم بات طے کرا دو تاکہ ہم اس کی شادی کرا دیں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی جلد از جلد ہمارے  پاس آرہے۔

منیب کی پہلی بیوی بھی تھی مگر وہ بانجھ تھی۔ زبیدہ نے بیٹی کی سوتن کو بھی قبول کیا اور محض اس کارن کمسن بیٹی کو بڑی عمر کے بیاہ دیا کہ وہ اس کی حفاظت نہیں کرسکتی تھی۔ ہمیشہ ایسے رشتے مجبوریوں کے تحت ہی ہوتے ہیں۔ بھولی بھالی زہرا کچھ جانتی نہ تھی۔

 بڑی بہن نے پھسلا لیا کہ ہمارے ساتھ تو جائے گی اور ہمارے ساتھ رہے گی۔ منیب بہ خوش تھا۔ وہ زہرا کو لے کر سعودی عربیہ چلا آیا مگر زبیده، بیٹی کا بوجھ اتار کر بھی اب خوش نہ تھی اور زہرا کو یاد کر کے روتی تھی۔ امی جان اس کو تسلی دیا کرتی تھیں کہ پہلے تم خود جلدی کررہی تھیں، اب بیاہ دیا ہے تو چین نہیں ہے۔

تینوں بیٹیوں کی فکر سے تو یہ بچاری عورت آزاد ہوگئی مگر بیٹے نے اس جی مار دیا۔ وہ غلط قسم کے لڑکوں کی صحبت میں پڑ کر تباہ ہوگیا۔ ان کے ساتھ مل کر اس کم سن بچے کو نقصان پہنچایا تو جیل جانا پڑ کی قید زبیدہ کے لئے سوہان روح تھی حالانکہ وہ ایک بڑے الزام میں اندر گیا تھا جس کی وجہ سے لوگ اس کے بیٹے ہی سے نفرت نہیں کرتا تھے  بلکہ ماں کو بھی بیزار نظر سے دیکھتے تھے کہ وہ بیٹے کی رہائی کے لئے بے تاب ہوئی پھرتی تھی۔

ماں تو ماں ہوتی ہے۔ بیٹا قاتل بھی ہو تو ماں اس سے نفرت نہیں کرسکتی۔ زبیده ان دنوں بہت پریشان تھی۔ وہ ہمارا کام بھی ٹھیک طرح سے نہیں کرسکتی تھی۔ کبھی صبح آتی، کبھی دوپہر کو اور کبھی دن ڈھلے آجاتی۔ کام ویسے ہی پڑا ہوتا۔ برتن، جھاڑو دھرے رہ جاتے۔ ہمارے گھر کا سسٹم متاثر ہوا اور ہم اس کی پریشانی سے پریشان ہوگئے۔

وہ ہماری پرانی ملازمہ تھی۔ امی اس کے دکھ سکھ شروع دن سے جانتی تھیں۔ اس کا اچھا وقت بھی دیکها تها ہمارے محلے کی پرانی رہائشی تھی۔ وہ الحاظ والا زمانہ تھا، اسی وجہ سے کچھ کہتی نہ تھیں۔ دیر سویر کو برداشت کرتے ہوئے اس کو سمجھاتی تھیں کہ تمہارے بیٹے کا قصور ہے۔ بس دعا کرو مگر اس کو صبر نہ آتا تھا۔ ایک دھن میں لگی تھی کہ کسی طرح اس کا بیٹا باہر آجائے۔

ان دنوں زبیده پاگلوں کی طرح ہر بڑے آدمی ک جاتی اور کہتی کہ خدا کے واسطے مجھ غریب ماں پر ترس کھائو اور میرے بچے کو جیل سے نکلوا مفلس لوگ ہیں، اتنے پیسے نہیں کہ کوئی بڑا وکیل کریں۔ بالآخر اس و بسی کو دیکھ کر میری ماں نے ابو کو مجبور کردیا کہ اس کے کے لئے کوئی وکیل کردیں اور فیس بھر دیں تاکہ اس کو قرار آئے۔

 ابو وکیل کیا اور معاملے کی سنگینی کے پیش نظر وہ فریق مخالف ، بھی گئے جنہوں نے کیس کیا تھا۔ ان کو راضی نام کے لئے سمجها بجھا کر تیار کرلیا۔ وہ بھی غریب لوگ تھے، ایک لاکھ لے کر راضی نامہ کرنے پر آماده ہوگئے۔

ان دنوں ایک لاکھ بہت بڑی رقم تھی۔ اس کا انتظام کرنا زبیده کے بس کی بات نہ تھی۔ زبیده بولی۔ میں اپنا گھر فروخت کرکے پچاس ہزار دے سکتی ہوں۔ خود دربدر ره لوں گی، لڑکا تو جیل سے نکل آئے گا۔

 جب وہ بہت زیاده گڑگڑائی تو فریق مخالف بولے۔ اچها مائی! جب پیشی آئی تب دیکھی جائے گی، ابھی تم چلی جائو۔ جب پیشی کا دن آیا، انہوں نے کوئی فیصلہ نہ کیا کہ وہ راضی نامہ کرنا ہی نہ چاہتے تھے، ہر صورت سزا دلانا چاہتے تھے۔

اگلی پیشی تک زبیده کا برا حال تھا۔ وہ سارا دن تلاوت کرتی اور دعائیں مانگتی رہتی۔ اس نے کام پر آنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ کہتی۔ میرے بیٹے کی غلطی کو معاف فرما دیں۔ بہرحال فریقین اور ان کے وکیل کو کچھ دے دلا کر اتنا ہوا کہ اس لڑکے کو لمبی سزا نہ ہوئی اور اس کو شک کا فائده دلایا کہ وہ خود مجرم نہ تھا مگر دوسرے مجرم لڑکے کے ساتھ تھا۔ یعنی کہ اس نے جرم کا ارتکاب خود نہیں کیا تھا، شریک جرم ہوا تھا۔ اس پر اسے سال بھر سزا ہوئی اور سال پلک جھپکتے کٹ گیا۔ وہ جیل سے باہر آگیا۔

جیل وہ جگہ ہے کہ جہاں غلط کام کرنے والوں اور قانون توڑنے والوں کو سبق سکھانے کے لئے سزا اور قید کیا جاتا ہے تاکہ سزا ان کو آزادی کی قدروقیمت کا احساس دلائے اور وہ سدھر جائیں لیکن مختیار کا معاملہ الٹ ہوگیا۔ کہ خدا جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔ جب تک مختیار جیل میں بند تھا، بڑی عافیت تھی۔ یعنی صرف ممتا دکھی تھی مگر اور ہر طرح سے امن تھا۔

 جیل سے باہر آگیا تو گویا بوتل سے جن باہر آگیا۔ اب وہ کچھ اور بھی زیاده بدمعاش ہوکر نکلا تھا۔ گھر آکر اس نے سبھی کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ ماں پر حکم چلانے لگا۔ وہ ہر وقت ماں سے کہتا کہ مجھے پیسے دو، مجھے دوستوں کے ساتھ گلیات کی سیر کو جانا ہے۔ سال بھر جیل میں بند رہا ہوں، اب مجھے سیر کا حق ہے ورنہ جیل میں قید و بند کے اثرات مج سے دور نہ ہوں گے۔

ماں کے وسائل کہاں تھے۔ دوسروں کے گھروں کی محنت، مزدوری کرنے والی لاڈلے کو سیروتفریح کے لئے رقم کہاں سے دیتی۔ اس کا چھوٹا لڑکا امتياز البتہ ماں کے دکھ اور بڑے بھائی کی بدمعاشی پر کڑهتا تھا۔

 وہ بہت حساس تھا۔ صبح اسکول جاتا اور شام کو سبزی منڈی جاکر مزدوری کرتا تھا۔ امتیاز اپنی کمائی سے کچھ رقم جوڑی ہوئی تھی۔ ماں کو پریشان دیکھ کر بھائی کو رقم دے دی تاکہ یہ ماں کے س سے ٹلے۔ یوں مختیار گلچھرے اڑانے کو دفعان ہوگیا۔

کچھ دن سکون کے گزرے کہ مختبار پھر آگیا اور دوباره رقم طلب کی۔ وہ خود تو کماتا نہ تھا مگر مزے اڑانے کو اس کی نظریں ماں اور چھوٹے بھائی کی کمائی پر ٹکی تھیں۔ جب یہ پیسے دینے سے انکار کرتے تو حشر اٹھا دیتا۔ ماں کا بازو مروڑتا اور چھوٹے بھائی کو گالیاں دینے لگتا۔ زبیده میری والدہ کو آکر احوال بتاتی اور روتی۔ کہتی۔ جانے کیوں مختیارے کو جيل سے نکلوایا۔ 

اے کاش! اس کو اندر ہی رہا دیتی۔شک سات برس کو سلاخوں کے پیچھے رہتا، ہم تو امن سے بون اب دیکھو باہر آتے ہی ہمارے لئے اس مردود نے قیامت کھڑی کرد مختیار کو بری صحبت نے ایسا برباد کیا کہ وہ روزبروز بد سے بدتر اور بے لحاظ ہوتا گیا۔ 

اب وہ رقم نہ ملنے پر بلند آواز سے ماں، باپ اور بھائیوں کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا۔ ایک روز تو وه خوب نشہ کرکے آیا اور جب مرنے مارنے پر تل گیا تو اس کی ماں تھانے چلی گئی اور تھانیدار سے کہا۔ آپ میرے بیٹے کو بند کردیں، یہ ہم کو بہت تنگ کرتا ہے۔ اس نے کہا۔ سوچ لو، پہلے تم اس کی رہائی کے لئے یہاں آکر منتیں کرتی تھیں۔

 اب اگر تمہارے کہنے پر اس کو ہم نے بند کردیا تو یہ پھر واپس نہیں آئے گا اور تم دوچار دنوں بعد پھر آجائو گی، کہو گی میرے بیٹے کو چھوڑ دو توپھرہم نہیں چھوڑیں گے۔ وہ یہ سن کر لوٹ آئی۔ انہی دنوں زبیده کا شوہر بیمار پڑ گیا۔ اس کے کرتوتوں کا بہت دل پر اثر لیا تھا۔ پہلے وہ دن کو گھر کا چکر لگا جاتا تھا، اب اس نے گھر آنا ہی چھوڑ دیا۔

 ایک رات وہ مسجد کے حجرے میں سو رہا تھا کہ اس کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی رہتا تھا، وہ دوڑا ہوا زبیدہ کے گھر آیا کہ اپنے لڑکوں کو بھیجو۔ تمہارے خاوند کی طبیعت بگڑ گئی ہے، ان کو ڈاکٹر کو دکھائو۔ مختیار نے تو نشہ کیا ہوا تھا، چھوٹے دونوں باپ کی خبر گیری کو گئے لیکن وہاں د پہنچے ہی تھے کہ رمضان نے دم دے دیا۔

 وہ روتے پیٹتے گهر لوٹے۔ امام صاحب نے کسی طور غریب رمضان کی تدفین کا بندوبست کیا اور یوں وہ منوں مٹی تلے جا سویا۔ باپ تنکوں کا بھی ہو تو بچوں کو اس کا سہارا ہوتا ہے۔ مختيارا لاکھ بے الگام سہی، باپ کی زندگی میں اس کے منہ سے مکان بیچنے کی بات نہ نکلتی تھی مگر اس کے مرتے ہی وہ کھلم کھلا ڈھٹائی پر اتر آیا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ مکان خالی کرو، میں نے یہاں کچھ کام کرنا ہے تاکہ آمدنی کا وسیلہ ہو۔

 سبھی جانتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ وہ ماں اور بھائیوں سے رہنے کا ٹھکانہ بھی چھین لینا چاہتا تھا تاکہ اس کو فروخت کر کے تمام روپیہ بتهيا لے اور چار دنوں کے اور گلچھرے اڑانے کا مزہ حاصل کرلے۔ یہ ایسا مطالبہ تھا جس کو ماننے سے اس کی ماں قاصر تھی۔ دیکھ مختيارا اگر تو نے یہ مکان بیچنے کی ضد کی تو میں خود تجھ کو جیل کروا دوں گی۔ 

اس میں تجھ اکیلے کا ہی حصہ نہیں، میرے باقی پانچ بچوں کا بھی حق ہے۔ تجه کو مکان حوالے کر کے میں کیونکر ان کی حق تلفی کرسکتی ہوں۔ وہ بولا۔ یا تو میں مکان لوں گا یا تیری جان جائے گی، یہ اچھی طرح سن لے ماں... میں اس میں دوستوں کی ایک ایسی بیٹھک کھولوں گا کہ جو آکر بیٹھے گا،

 وہ دن بھر کا کرایہ دے گا۔ جانتی ہوں کہ تیری اس بیٹھک کا کیا مطلب اس کا مطلب یہ ہے کہ تو اگر اس کو بیچے گا نہیں تو پھر یہاں جوا خانہ یا شراب میں تیری رگ سے واقف ہو چکی ہوں۔ مجھے سے خیر کی کوئی امید ہے۔ میں تم کو کوئی سستا کرائے کا مکان لئے دیتا ہوں.

 تو مان جا اور مکان میرے حوالے کردے ورنہ جان لے کہ تیری خیر نہیں۔ میں زبردستی بھی تم لوگوں کو یہاں سے باہر کرسکتا ہوں۔ ہم کو زبردستی باہر کرکے دیکھ... میں تھانے جاکر تجھ کو بند نہ کرا دوں تو کہنا۔ ماں نے بھی دھمکی دے دی۔ جا تھانے اور جو تجھ سے ہوسکتا ہے، کرلے۔ میں بھی دیکھتا ہوں کہ تیرا تھانیدار سورما میرا کیا بگاڑ لے گا۔

 آب حد ہوگئی تھی۔ زبیده جانتی تھی کہ یہ لڑکا کسی طور ٹلنے والا نہیں۔ اس کی نہ مانی تو جان کو آجائے گا۔ تب وہ تھانے گئی اور تھانیدار سے بپتا کہہ سنائی۔ بولی۔ اب بے شک تو میرے اس ناخلف بیٹے کو اندر کردے، میں قلق نہ کروں گی بلکہ تیری شکرگزار رہوں گی۔ ماں کی عزت کا بھی خیال نہیں ہے۔ اچھا اماں! اب تو سکون سے گھر جا، یہ معاملہ ہم پر چھوڑ دے۔ ہم سنبھال لیں گے تیرے لڑکے کو...وہ آنسو پونچھتی آئی تو مختیار بہن اور بھائیوں کو دھکے دے کر گھر سے باہر کررہا تھا اور ان کا سامان بھی گلی میں پھینک دیا تھا۔ 

محل اسی وقت کسی نے تھانیدار کو اطلاع دے دی۔ پولیس وین آگئی اور منشیات رکھنے کے الزام میں اس کو ساتھ لے گئے۔ ماں سمجھ رہی تھی کہ چند دن رکھیں گے اور پھر رہا کردیں گے کیونکہ منشیات تو اس سے برآمد نہ ہوئی تھی، اسے تو ماں کو تنگ کرنے کی وجہ سے انہوں نے پکڑا تھا۔

 اس کو کیا خبر تھی کہ واقعی منشیات کے کچھ مجرم ان کو مطلوب تھے۔ مختیار اسی مطلوب افراد میں چارہ بن گیا۔ نہیں معلوم کہ ان کا تعلق کسی گروه تها کہ نہیں، اس سے منشیات ، برآمد ہوئی تھی یا نہیں لیکن اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو اس قسم جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔

 چند دن بھی زبیده اپنے گھر میں سکون سے بسر نہ کرنے پائی کہ اس جنموں جلی کو یہ خبر ملی۔ اس کا بیٹا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ حقیقت کیا تھی، یہ اس غریب کو کون بتاتا۔ بہرحال اس نے تو بیٹا کھویا تھا۔ رورو کر اس کا برا حال تھا۔ خود کو مجرم سمجھتی تھی۔ ماتھا کوٹتی اور کہتی تھی۔ بائے، یہ سب میرا کیا دھرا ہے۔ اے کاش! مکان پیارا نہ کرتی۔ اس منحوس مکان کی خاطر سے جگر گوشے کو کھو دیا۔ کرایے میں ہی رہ لیتی اور بیٹے کی شکایت کرنے تھانے نہ جاتی، میرا بیٹا جان سے تو نہ جاتا۔

TAG: Urdu Noval, Urdu Novals, Novels in Urdu, famous urdu novels, zeenia sharjeel, zeenia sherjeel novel, prime urdu novels, urdu novels list, best urdu novels, meerab hayat novels, very romantic urdu novels, full romantic urdu novels, free urdu digest, raja gidh, best urdu books, kitab nagri novel, nimra ahmed novels, urdu novels pdf, full romantic urdu novels, haalim full novel, haalim novel full, jannat k pattay full novel, haalim full novel pdf, peer e kamil full novel, karakoram ka taj mahal full novel, namal full novel, junoon se ishq tak full novel, muhabbat dil pe dastak full novel pdf, qarboonat baram full novel, hot full romantic urdu novels, bin mangi dua full novel, urdu short stories, urdu novels online, new urdu novels, stories in urdu new, short novels, short novels in english, best short novels, short novels to read, short novel story, all novels of zeenia sharjeel, dil e nadan novel, urdu stories, urdu kahaniyan, fairy tales in urdu, romantic urdu novels, urdu stories for kids, moral stories in urdu, horror stories in urdu, classic urdu novels, urdu short stories, urdu novels online, new urdu novels, stories in urdu new, short novels, short novels in english, best short novels, short novels to read, short novel story,

Novels in Urdu

[Novels][bleft]

HEALTH TIPS

[Health-Tips-in-Urdu][bleft]

Totkay in Urdu

[Totkay-in-Urdu][bleft]

Beauty Tips

[Beauty-Tip-in-Urdu][bleft]

Interesting Information

[Interesting-Information][bleft]