Romantic Urdu Novels
Novel in Urdu - متمول خان اسم بہ مسمی تها کہ واقعی دهن دولت اس کی تجوریوں میں سماتے نہ تھے۔ وہ خاندانی رئیس تھا۔ لہذا اس گھرانے کے تمام مرد اپنی ہر خواہش پوری کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں متمول کا نور نظر عالی جاه جان ایسی جگہ جانے لگا جہاں اس جیسے نوجوان جھوٹی محبت کا کھیل کھیلتے ہیں اور زندگی کی رنگینیوں کا لطف اٹھاتے ہیں کہ گناه و ثواب اور نیکی بدی کی تمیز جاتی رہتی۔
Novel in Urdu - اسی بدنام جگہ ہی ایک دن عالی جاہ کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہو گئی جو فلم میں ایکسٹرا کے رول کرتی تھی۔ یہ کوئی نامی گرامی ایکسٹریس نہ تھی بلکہ فلم کے پردے پر ہیروئن کے رقص کے پس منظر میں ہلتی جلتی لڑکیوں کے ساتھ پرچھائیں کے طور پر دکھائی جاتی۔ یہ لڑکیاں وہ پرچھائیاں ہوتیں جن . چہرے کیمرے کے سامنے ایک ساعت کو آکر چشم زدن میں غائب ہوجاتے تھے جبکہ وہ تو شوق ناموری کا چراغ دل میں جلائے اس امید کے ساتھ فلمی دنیا میں آئی تھی کہ اس کا حسن اسے ہیروئن کا مقام دلا دے گا۔
اس کے حسن نے یہاں شدید اضطراب کا درد سہا مگر منزل نہ ملی اور وہ گھور اندھیروں کی نذر ہو گئی... اس مضطرب روح کا نام تھا ما روز.
ماه روز آب مہرروز ہوگئی تھی۔ وہ مہر پر شب طلوع ہو کر ہر صبح سویرا ہوتے ہی سیاہی کے سمندر میں ڈوب جاتا تھا اور اس کو خریدنے والے اپنی أجلى دنیا کی راہ لیتے تھے۔
مہرروز کے چاہنے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اپنے گھر کی عزت بنانے پر تیار نہ تھا۔ کیونکہ یہ وہ چاند نہ تھا جو اندھیروں میں بھٹکے ہوئوں کو روشنی دکھاتا ہے اور منزل کی طرف رہنمائی کے لئے چمکتا ہے۔ اس کی تو اپنی زندگی کی گتھی بحر ظلمت میں تیر رہی تھی۔ وہ فلم انڈسٹری میں ہیروئن بننے کا خواب لے کر آئی اور اپنا آپ گنوا بیٹھی۔ جب وہ عالی جاہ کو ملی، وہ اس کے حسن سے مسحور ہوگیا۔ اس نے تو صرف ایک شب کی مہمان سمجھ کر ملاقات کی تھی۔
مگر اس لڑکی میں جانے کیا بات نظر آئی کہ وہ مہرروز کی زلف کا اسیر ہوگیا۔ ملاقاتوں میں دلی تعلق بڑھا۔ پھر ایسا وقت آگیا کہ اس رئیس زادے نے فیصلہ کرلیا کہ وہ شادی کرے گا اور دلہن بنا کر اپنی حویلی میں لے جائے گا۔ گھر میں شادی کی بات چلی۔ عالی جاہ نے باپ سے صاف کہہ دیا کہ وہ اپنی دلہن پسند کرچکا ہے اور مہرروز سے شادی ہی اس کی آرزئوں کی تکمیل ہے۔ جب متمول خان کو معلوم ہوا کہ مہرروز کے روزگار کا وسیلہ کیا ہے، ان کو جھٹکا لگا. بیٹے کی پسند کسی صورت قبول نہ تھی کیونکہ ان کے نزدیک مہرروز بکائو شے تھی۔
ایسی لڑکی بھلا کیونکر اس کے گھر کی بہو اور نسل کی پروردہ ہو سکتی تھی۔ اس نے بیٹے کو اس امر و باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔ مگر وہ کسی طرح نہ مانا۔ پہلے د سے زیادہ مہرروز سے میل جول بڑھا لیا اور اس کو صرف اپنا پابند کرلیا۔ وہ اب عالی جاہ کے سوا نہ ملتی تھی۔ جب باپ اپنے سرکش بیٹے کو اس کے ارادے سے باز نہ رکھ سکا تو اس کی انوکھی تدبیر نے کام کر دکھایا۔ وہ لاہور چلا گیا اور بہت سی دولت مہرروز کی ماں کو دے کر اس کی لڑکی کو حاصل کر لیا۔ وہ جب مہرروز کو لاہور والی کوٹھی پر لے گیا، وہ چونک گئی۔ اس . لئے یہ جگہ جانی پہچانی تھی
وہ پہلے بھی یہاں آچکی تھی۔ کیا آپ کا نام متمول خان ہے؟ میں کوئی بھی ہوں تم کو اس سے کیا؟ تم بک سکتی ہو، اس لئے میں نے تم کو خرید لیا ہے۔ خان کی یہ بات سن کر لڑکی دل کو دھکا لگا۔ وہ قیامت کی رات تو گزر گئی مگر صبح ماں کے ڈیرے آکر اس نے زہر پی لیا اور ہمیشہ کی نیند سو گئی۔ وہ گمنام ایکسٹرا جو شہرت کی تلاش میں اندھیروں میں بھٹکتی رہی تھی، آج کی صبح اخبارات میں اس کی خودکشی کی خبر نے اسے بام شہرت پر پہنچا دیا تھا۔
قلم ایکسٹرا کے حوالے سے مہرروز کی خبر جب اخبارات میں شائع ہوئی، متمول خان کا نورنظر تو جیسے پاگل ہو گیا۔ پھر جب اس کے علم میں یہ بات آئی کہ اس سے مغرور اور ضدی باپ کی کسی قابل مذمت حرکت کی وجہ اس کی محبت کا چراغ گل ہوا ہے تو اس کی حالت غیر ہوگئی۔ وہ کئی دنوں تک اپنے کمرے میں بند شدت غم کی وجہ سے دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہو رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ مرچکا ہے۔ دوستوں نے سمجھایا، سہارا دیا... وہ جو اپنے حواس کھو چکا تها، رفتہ رفتہ پھر سے سنبھلنے لگا۔
غم میں د سلگتے بالآخر اس نے خود کو دختر زر کی مدہوشی اور رقص و سرور کی محفلوں میں گم کردیا۔ اس کی حالت زار اور بربادی پر متمول خان بے نیاز ہورہا۔ وہ خوش تھا کہ اپنے ضدی لڑکے کو اچھا سبق دے دیا اب کبهی وه کسی رقاصہ سے عمر بھر کا بندهن باندھنے کی خواہش نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ بکائو کهلونے صرف کھیلنے کے لئے ہوتے ہیں، عمر بھر کا بندھن باندهن کے لئے نہیں۔ متمول خان ایک قبیلہ کا سردار تھا اور عالی جاہ آپ کا وارث و جانشین۔ اس باپ کہا... ٹھیک ہے آپ یہ جنگ جیت گئے ہیں، لیکن میں بھی ہارا ہوں۔ آپ اپنی آئندہ نسل کو ایک رقاصہ کی گود سے بچانا چاہتے تھے۔
اب آپ کسی اور عورت کی گود میں اپنی نسل کو پروان چڑھتا نہ دیکھا گے کیونکہ میں نے عہد کیا ہے کہ عمر بھر شادی نہ کروں گا تاکہ آپ کی وسیع و عریض جاگیر اپنے وارث کے لئے ترستی رہ جائے۔ باپ نے اس کو منانے کے لئے جتن کئے تو وہ بولا... میری اور کوئی خواہش نہیں، مجھ کو بس آپ یہ گھر عنایت کر دیں جو ہمارے آبائو اجداد کا ہے اور جس میں آپ رہتے ہیں۔ اپنے لئے آپ کوئی دوسرا محل منتخب کر لیجئے۔ یہ کوئی ایسی بڑی خواہش نہیں کہ جس کو پورا کرنے میں مجھے عار یا کوئی پریشانی ہو۔ یہ محل اب بھی تمہارا ہے اور میرے بعد بھی تم ہی اس کے مالک و وارث ہو لیکن تم دوسری رہائش گاہ لے لو ۔
تو آپ اس کو میرے لئے خالی کر دیں... اس کے سوا میں کچھ نہ مانگوں گا۔ مجھے یہی پرانی رہائش گاہ ہی مطلوب ہے۔ باپ نے کچھ دیر سوچا اور پھر وہ اپنے تعمیر کردہ ایک اور گھر میں منتقل ہوگیا اور یہ عمارت مکمل طور پر عالی جاہ کی دسترس میں دے دی گئی۔ عالی جاہ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمن محل کی تختی ہٹا کر اس کے اوپر ’’متمول محل، لکھوا دیا۔ اور پھر اس کو اپنی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا.. اس کے بعد عالی جاہ نے اپنے باپ دادا کی رہائش کے اس محل نما گهر کو سجا کر اس کو عروسی محل میں تبدیل کر دیا۔
اب وہ ہر روز یہاں ایک سجی سجائی دلہن لاتا اور اگلے روز اس کو رخصت کر دیتا۔ عرصہ تک پی تماشا ہوتا رہا اور باپ اپنی آنکھوں سے بیٹے کی خرابیاں دیکھتا رہا۔ جو انتقام کی میں جلتے ہوئے خود کو اور باپ دادا کی ناموس کو انتقام کے الائو میں جھونک رہا تھا۔ وہ بیٹے کے اندر آتش فشاں کے لاوے کو جان چکا تھا، اس لئے چاہتے ہوئے بھی اس کو نہ روک سکا۔ روکنے کی اس میں ہمت نہ رہی تھی کیونکہ ان کو علم تھا کہ اگر یہ لاوا تند ہو جائے تو بہت بھیانک تباہیاں لا سکتا ہے۔
باپ کی خاموشی بیٹے کے انتقام کی آگ کو سرد کر دیا۔ وہ پتھر دل سہی مگر کبهی تو پتھر میں بھی جونک لگ جاتی ہے۔ ایک دن متمول خان بیٹے کے پاس آیا اور کہا۔ میرے شیر، آب یہ کھیل بند کرو اور تمن علی کی توقیر کو تماشا مت بنائو۔ اور نہیں تو اپنے قبیلے کا ہی خیال کر لو جس نے تم ہی سے مستقبل کی امیدیں لگا رکھی ہیں۔ آپ بتائیے کیا چاہتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں کہ باپ دادا کے گھر کی پاکیزگی کو مزید برباد مت کرو اور اس کو شکارگاه بنانے کی بجائے گھر میں تبدیل کردو۔
وہ کیسے سردار صاحب! بتائیے میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ تم ایک بار اپنے ماموں کی بیٹی فریحہ بی بی کو ایک نظر دیکھ لو تاکہ میں اس کے ساتھ تمہاری شادی کی بات کرسکوں۔ فریحہ بی بی نہ صرف جاگیردار کی بیٹی ہے بلکہ وه پڑهی لکھی اور خوبصورت بھی ہے۔ ٹھیک ہے بابا خان. اس نے ایک فرمانبردار بیٹے کی مانند سر کو جھکا لیا۔ متمول خوش ہوگیا کہ شاید بیٹا اب راه راست پر آگیا ہے۔ اتفاق ایک دن عالی خان ماں سے ملنے گیا تو باپ کے گهر فریحہ بی بی آئی ہوئی تھی۔ بے شک وہ بہت خوبصورت تھی۔
مہرروز کے بعد جو لڑکی اس کو زندگی میں دوسری بار پسند آئی تھی، وہ فریحہ ہی تھی۔ اس نے اس کے ساتھ بات چیت کی اور پھر وہ ماموں کے گهر تواتر سے یہ دونوں آپس میں بات چیت کرتے اور جب فریحہ بی بی کو شاپنگ کرنی ہوتی تو ممانی اس سے کہتی کہ عالی جاہ! میری بیٹی کو شہر لے جائو، اس طرح یہ گھوم پھر لے گی۔ دونوں میں پیار بڑھا۔ محبت نے اس کے گھائل دل میں ایک بار پھر سے پیار کے پھول کھلا دیئے۔ فریحہ نے عالی سے کہا کہ اب تم اپنی ماں سے رشتے کی بات کرو تاکہ تمہارے والدین میرے والدین سے رشتہ طلب کرنے شادی نہ کرنے کی قسم کھا چکا ہوں۔
میں ان سے اب یہ بات نہیں کہہ سکتا۔ ہاں اگر تم میرے ساتھ کورٹ میرج کرنے پر تیار ہو تو ہم شادی کر لیتے ہیں۔ وہ عالی کا یہ بیان سن کر حیران رہ گئی۔ کہنے لگی، مگر اس طرح تو ہمارے والدین ہماری شادی میں شرکت نہ کرسکیں گے۔ یہ کہہ کر فریحہ نے خیال کو رد کر دیا مگر اس نے ماں کو یہ بات بتا دی۔ و تم اس سے دور ہی رہو۔ اس لڑکے کے دماغ میں کچھ خرابی ہے۔ پہلے ٹیڑھے پن کے افسانے مشہور ہیں۔ میں نے تو تمہارے والد کی کو رنا چاہا لیکن یہ بے تکی بات سن کر کون اپنی بیٹی کا وفہم کو دے گا؟ سے کہہ تو دیا، اب پچھتائی۔
اسے ماں کی باتیں بھی پسند نہ کی ماں اپنی جگہ ٹھیک تھی لیکن دلوں کے معاملوں سے تو خدا کی پناہ کہ بے اختیار اور تندوتیز موجوں کی مانند ہوتے ہیں۔ عالی جاہ کو دل میں بسا لیا تھا اور اب اس کے سوا کوئی دوسرا اس دل میں نہیں سما سکتا تھا۔ وہ سوچتی۔ بے شک میری شادی عالی سے ممکن نہیں تو کسی اور سے بھی نہ ہو، میں یونہی بن بیاہی رہ جائوں تو اچھا ہے۔ اور کسی کے ساتھ شادی کرنا اب گوارا نہ تھاجیسا وہ سوچ رہی تھی، ویسا اس کے والدین نہیں سوچ رہے تھے۔ انہوں نے اس کا رشتہ اس کے ایک اور کزن سے کر دیا جو بیرون ملک گیا ہوا تھا... ٹیلی فون پر نکاح ہوا اور فریحہ کو اس کے دولہا کی طرف روانہ کر دیا گیا۔
فریحہ جب ایئر پورٹ پر اتری، اس کا دولہا اس کو لینے آیا ہوا تھا۔ وہ افسرده و شکستہ دل تھی۔ ندیم نے محسوس کرلیا کہ وہ یہاں آنے پر خوش نہیں ہے۔ ندیم تعلیم یافتہ لڑکا تھا۔ اس نے اداسی کا سبب پوچھا تو فریحہ کی آنکھوں آنسو ٹپک پڑے... تب وہ دل جوئی کرنے لگا اور کہا جو دل میں ہے مجھے شوہر نہیں، سچا دوست سمجھ کر کہہ دو، میں اس بات کا ہرگز برا نہ مانوں گا کہ تم کو میں پسند نہیں آیا بلکہ جو ہوگا تمہاری خواہش کے عین مطابق ہوگا۔ میں تمہاری خوشی، رضا اور مرضی کا احترام مقدم رکھوں گا۔ اگر تم یہاں میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تب بھی میں تم کو آزاد کردوں گا تاکہ تم اپنی خوش کی زندگی گزار سکو۔
فریحہ کے دل پر جو بوجھ تھا اور جو بات وہ والدین سے نہ کہہ سکتی تھی، ندیم کے دوستانہ رویئے کی وجہ سے اس کو کہہ دو کہ میں تم سے نہیں، شادی کرنا چاہتی تھی لیکن والدین نہیں مانے اور مجھے میری مرضی کے خلاف بھیج دیا ہے۔ اب تم خود فیصلہ کرلو یا تو میں جبر سے تمہارے ساتھ زندگی گزاروں یا پھر میں جبر کا نہیں، شخصی آزادی کا قائل ہوں۔ تم چاہو تو میں تم کو آزاد کرسکتا ہوں۔ بہرحال اس بارے میں اچھی طرح سوچ لو۔
سوچنے کے لئے مجھے وقت چاہئے اور یہاں تمہارے ساتھ رہ کر میں کچھ بھی نہیں سوچ سکتی۔ میں تم کو واپس پاکستان بھجوا دیتا ہوں اور تمہاری مرضی کے مطابق پھر میں تم کو وہ کاغذات بھی بھجوا دوں گا۔ جو تم چاہو گی۔ ندیم نے یہی کیا۔ اس نے فریحہ کو پاکستان واپس بھیج دیا۔ لیکن وہ اپنے یا ندیم کے وا کے گھر جانے کی بجائے ہوٹل چلی گئی اور وہاں سے عالی جاه کیا جو اسے ہوٹل سے لاہور والے گھر لے آیا۔ کہا کہ تم اب میرے پاس رہو. جب تک کہ ندیم تم کو طلاق کے کاغذات نہیں بھجواتا۔
ندیم کو فون کیا کہ مجھے طلاق کے کاغذات اس پتے پر بھیجو. کئی ماہ گزر گئے اس نے طلاق کے کاغذات نہ بھیجے... فریحہ نے فون کیا کہ تم وعدہ کیا تھا کہ میری مرضی پر فیصلہ کردو گے۔ اب میری مرضی سے، میں نے آگاہ کر دیا تو ابھی تک کاغذات کیوں نہیں بھیجے ہیں۔ کیا تم نے میرے ساتھ مذاق کیا تھا؟ میں نے نہیں، مذاق تو تم نے میرے ساتھ کیا ہے۔ جب میرے ساتھ نکاح قبول نہ تھا تو ٹیلی فون پر ہاں کیوں کہی تھی۔ اب میں تم کو کاغذات نہ بھیجوں گا۔ کیا طلاق دوں کہ تم اپنے محبوب سے شادی کرسکو۔ ہرگز نہیں، تم عمر بهر یونہی لٹکتی رہو گی۔ یہ جواب سن کر وہ پریشان ہو گئی۔ کہنے لگی۔ ندیم جتنا بھی پڑھ لکھ گیا ہے، وہ تھا تو گائوں کا آدمی... اس نے وہی کیا جو کوئی دیہاتی کرتا ہے۔
وہ عالى جاہ کے ساتھ لاہور میں تھی۔ اس نے خلع کا کیس کیا۔ چار سال گزر گئے... اب عالی کا دل بھی اس سے اوب گیا تھا مگر رکھنے پر مجبور تھا کہ میکہ اور سسرال دونوں اسے قبول نہ کرتا ایک دوست انور سے کہا کہ میں گائوں جا رہا ہوں، ایک نئی دلہن : میں زیادہ دنوں تک ایک ہی رستے پر سفر نہیں کرسکتا اور فریحہ میری ہو بھی نہیں سکتی۔ کیونکہ ہمارے خاندانوں میں اس کی وجہ سے شدید رنجش پڑ گئی ہے۔ لہذا تممیرے تمن محل جانے کی اطلاع پہنچا دینا۔ انور ایسا ہی کیا۔ اس نے جاکر فریحہ سے کہا کہ وہ تمن محل چلا گیا ہے، ایک نئی دلہن کی پذیرائی کے لئے بہتر ہے کہ تم خود اپنے والدین سے رابطہ کرلو۔
فریحہ کو اس کی بات کا اعتبار نہ آیا۔ خواه محبت کے رشتے پر کتنا ہی اعتبار کیوں نہ ہو، عورت ایسی بات سن کر ٹھہر نہیں سکتی۔ فریحہ بھی عالی کے پیچھے گائوں روانہ ہوگئی۔ جب وہ تمن محل آئی۔ دروازے پر دستک دی تو اس نے ایک سجی ہوئی عورت کو دیکھا اور الٹے قدموں لوٹ گئی۔ شاید وه ندی میں چھلانگ لگا دیتی لیکن ڈرائیور نے ایسا نہ کرنے دیا اور ایک آدمی کو بھیج کر اس کے والدین کو اطلاع کردی۔ یوں عالی جاہ کے ماموں بیٹی کو گهر کیونکہ وہ اگر اس کو گھر نہ لے جائے تو سارے گائوں میں سے جو بات چھپی ہوئی تھی، وہ طشت ازبام ہوجاتی اور ان کی بڑی جگ ہنسائی ہوتی۔ کے بعد فریحہ نے عمر بھر شادی کی اور نہ گھر سے باہر قدم نکالا۔ وہ باپ کے اونچے گھر کی بلند چہاردیواری میں ہی زندگی کے دن پورے کرکے اپنے خالق کے پاس چلی گئی۔ اس طرح ایک ضدی بیٹے اور سردار باپ کے بیچ اختلاف کی سزا ایک معصوم لڑکی کو ملی... اور وہ عمر بھر خوشیوں کو ترستی رہ گئی۔